نئی نئی رگیں ہیں جلتی کیوں
یہ راکھیں ابھی ہیں سلگتی کیوں
چراغ بجھ گیا کھڑکی پہ رکھا
تو پِھر بھی ہوا ہے چلتی کیوں
ہوا كے سائے میں رہ جاون پر
اب ہوا ہے اجنبی لگتی کیوں
نا ہی جوابِ تصوُّف رہتا
حسرتِ دن ہے خاموش رہتی کیوں
مکان كے اندر ہوا تو نہیں
پِھر امیدِ فنا ہے بجھتی کیوں