مرتی وی اگ کا انگارہ بے نور
بھجتی وی یاد کا سہارا بے نور
گر پڑے نیچے سارے ستارے
شہر تو روشن فلک بنا بے نور
سورج تک پھنچیں یہ اونچی عمارتیں
بتوں کے چھاوں میں خدا ہوا بے نور
چھپی گئں کتابیں، مضمون، رسالے
گو سیاہ صفحہ پر قلم تھا بے نور
لکہے گۓ الفاظ سارے ہمارے
کاش ہم بول پاۓ، سخن رہا بے نور